داستان فسانۂ عجائب کا فنی جائزہ/خصوصیات: فسانۂ عجائب، رجب علی بیگ سرور کی ایک نہایت معروف اور مقبول داستان ہے جو اردو نثر میں فنی و فکری ہر دو حوالوں سے اہم مقام رکھتی ہے۔ اگرچہ اس کا اسلوب قدرے مشکل اور پلاٹ پیچیدہ ہے، جس پر بعض ناقدین اور قارئین نے اعتراضات کیے ہیں، تاہم مجموعی طور پر اس کی ادبی حیثیت مسلم الثبوت ہے۔ یہ داستان دبستانِ لکھنؤ کی تہذیب، معاشرت، ذوقِ لطیف اور زبان و بیان کی چمک دمک کا آئینہ دار شاہکار ہے۔
فنی اعتبار سے فسانۂ عجائب میں کردار نگاری، کہانی، مکالمات اور اسلوبِ بیان ایسے اجزائے ترکیبی ہیں جنہوں نے اردو نثر کو ایک نئی وسعت بخشی۔ تاہم پلاٹ کے حوالے سے بعض خامیاں ضرور پائی جاتی ہیں۔
فسانۂ عجائب کا فنی جائزہ | فنی خصوصیات
- پلاٹ
- کردار نگاری
- مکالمہ نگاری
- منظر نگاری
- اسلوب
- اختصار
پلاٹ
داستان (فسانۂ عجائب) کا بنیادی قصہ جانِ عالم اور انجمن آرا کی ملاقات اور شادی کے گرد گھومتا ہے، جو ایک سادہ، روایتی اور متوقع بیانیہ ہے۔ لیکن مصنف نے اس بنیادی ڈھانچے میں متعدد غیر ضروری ضمنی واقعات اور طویل قصے شامل کر دیے ہیں، جن سے نہ صرف کہانی کا ربط متاثر ہوا بلکہ قاری کی توجہ بھی بٹنے لگتی ہے۔

بعض ناقدین کے مطابق فسانۂ عجائب کا موضوع بھی نیا نہیں، بلکہ یہ گلشنِ نوبہار کا چربہ محسوس ہوتا ہے، جو مہجور نے سرور سے کئی برس قبل لکھنؤ ہی میں قلم بند کی تھی، اور قرین قیاس ہے کہ سرور نے اس داستان سے واقفیت حاصل کی ہو۔
یہ داستان درحقیقت ایک ہیرو کی چند مشکلات اور آفات کے بعد اپنی محبوبہ کو حاصل کر لینے کی کہانی ہے۔ لیکن کہانی میں ارتقاء کے بعد جہاں اختتام آنا چاہیے تھا، وہاں واقعات کو بلاوجہ طول دیا گیا، جس سے پلاٹ کی روانی متاثر ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قصہ ختم ہونے کے بعد اچانک دوبارہ سے شروع ہو گیا ہو، جو پلاٹ کی ساخت میں ایک واضح کمزوری ہے۔
تاہم ان تمام تنقیدی نکات کے باوجود فسانۂ عجائب کی ادبی عظمت سے انکار ممکن نہیں۔ یہی وہ خصوصیت ہے جو اس داستان کو زندہ جاوید بناتی ہے۔ اس کی مقبولیت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ لکھنؤ میں مائیں اپنے بچوں کو یہ داستان زبانی یاد کر کے سنایا کرتی تھیں، اور اس کے فقرے زبان زدِ عام ہو گئے تھے۔
کردار نگاری
رجب علی بیگ سرور نے فسانۂ عجائب میں کردار نگاری کا عمدہ نمونہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف ہر کردار کی شخصیت کو نمایاں کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے بلکہ ان کرداروں کو ایسے ماحول میں پیش کیا ہے جو ان کی نفسیات، گفتار اور کردار کے عین مطابق محسوس ہوتا ہے۔ سرور کو اس بات کا کمال حاصل ہے کہ وہ داستانی اسلوب میں کرداروں کے جذبات، مزاج اور کیفیات کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ قاری اُن سے مانوس ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کرداروں کی زبان میں لکھنوی تہذیب، محاورہ بندی، مقامی لب و لہجہ اور روزمرہ اندازِ گفتگو کو اس خوبی سے برتا ہے کہ مکالمات نہ صرف جاندار بلکہ دلنشین بن گئے ہیں۔ ان کے ماورائے فطرت کردار، جیسے دیو، جن، پریاں اور جادوگر، بھی قاری کو غیر حقیقی محسوس نہیں ہوتے، کیونکہ ہندوستانی قصہ گو روایت میں اس نوع کی کہانیاں پہلے سے ہی رائج اور مقبول تھیں۔
مکالمہ نگاری
رجب علی بیگ سرور کی مکالمہ نگاری اردو نثر کا ایک امتیازی وصف ہے۔ بیشتر ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ سرور نے جس پختگی اور چابک دستی کے ساتھ مکالمات قلم بند کیے ہیں، وہ ان سے پہلے کی داستانوں میں خال خال ہی دکھائی دیتی ہے۔ ان کے مکالموں میں سماجی مرتبہ، کردار کی حیثیت، جغرافیائی اثرات اور لکھنوی رنگ و آہنگ کی جھلک نمایاں طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔
مثال کے طور پر، جب سوداگر اور بھٹیاری کے مابین گفتگو ہوتی ہے تو ان کی زبان اور طرزِ بیان ان کے معاشرتی پس منظر کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے:
- سوداگر: “یہاں کون رہتا ہے؟”
- بھٹیاری: “چڑی مارا۔”
- سوداگر: “اس کالڑ کا خوب باتیں کرتا ہے۔”
- بھٹیاری: “لڑکا بالا تو کوئی نہیں، فقط جور و خصم رہتے ہیں۔”
اسی طرح جب جانِ عالم ملکہ مہر نگار کے جلوس کے سامنے آتا ہے اور اس کی سہیلیاں اس پر فریفتہ ہو جاتی ہیں تو وہ یوں گفتگو کرتی ہیں:
- “کسی نے کہا: ان درختوں سے چاند نے جھانک کر دیدار کیا ہے۔”
- “کسی نے کہا: غور سے دیکھ، یہ ماہتاب ہے!”
- “ایک بولی: چاند نہیں تو تارہ ہے۔”
- “دوسری نے کہا: یہ سرو قد ہے یا چمنِ حُسن کا شمشاد!”
- “کسی نے قسم کھائی: یہ پرستان کا پری زاد ہے!”
- “ایک نے عش عش کر کے کہا: غضب کا دلدار ہے!”
یہ مکالمے نہ صرف کرداروں کی جمالیاتی حس، ان کے مزاج اور ماحول کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ فسانۂ عجائب کی فنی خوبیوں میں ایک خاص جمالیاتی رنگ بھی بھرتے ہیں۔
منظر نگاری
رجب علی بیگ سرور منظر نگاری میں غیر معمولی مہارت رکھتے تھے۔ فسانۂ عجائب میں جا بجا انہوں نے قدرتی مناظر، شہری فضا، محلات، باغات، بازاروں، مکانوں، اور دیگر مناظر کی ایسی دلکش اور جیتی جاگتی تصویریں کھینچی ہیں کہ قاری خود کو اس ماحول کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ ان کی منظر نگاری میں مشاہدے کی گہرائی، الفاظ کا چناؤ اور تصویری اسلوب نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔
📑
اہم روابط
سرور کی زبان میں ایک ایسا جادو ہے جو الفاظ کے ذریعے مناظر کو متحرک کر دیتا ہے۔ وہ نہ صرف رنگ، خوشبو، شکل و صورت کا ذکر کرتے ہیں بلکہ فضا، کیفیت اور ماحول کو بھی لفظوں میں قید کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی منظر نگاری محض بیانیہ نہیں بلکہ تجرباتی اور جذباتی سطح پر بھی قاری کو متاثر کرتی ہے۔
مثال کے طور پر، ملکہ مہر نگار کے باغ کا ذکر کرتے ہوئے سرور کچھ یوں تصویر کشی کرتے ہیں:
“بہت آراستہ و پیراستہ، عرضِ مربع میں، چار کونوں پر چار بنگلے، گرد سبزۂ نوخاستہ، دروازہ عالی شان، نفیس مکان، زیرِ دیوار خندق پر کیلے، روش کی پڑیاں قرینے کی۔۔۔ گلِ شبّو سے بھینی بھینی خوشبو آتی تھی، میوہ دار درخت یک لخت جدا، بار کے باعث ٹہنیاں جھکی ہوئی، درخت سر کشیدہ، پھل لطیف و خوشگوار، پھول نازک و قطع دار۔”
یہ اقتباس محض ایک منظر کی جھلک ہے، لیکن اس میں جو جزئیات نگاری، حسیاتی تجربہ اور جمالیاتی ذوق پایا جاتا ہے، وہ سرور کی فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کی منظر نگاری صرف آنکھوں سے نہیں دیکھی جاتی، بلکہ اسے محسوس کیا جاتا ہے—جیسے قاری خود ان خوشبوؤں کو سونگھ رہا ہو، درختوں کی چھاؤں میں چل رہا ہو اور پھولوں کی رنگینی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو۔
سرور کی منظر نگاری کا یہی وصف فسانۂ عجائب کو ایک جاندار اور زندہ داستان بناتا ہے، جو نہ صرف تخیل کو جِلا دیتی ہے بلکہ اردو نثر کو فنی اعتبار سے نئی رفعتوں سے آشنا کرتی ہے۔
فسانۂ عجائب کا اسلوب
فسانۂ عجائب کی سب سے نمایاں خوبی اس کا اسلوب ہے، جو اپنی رنگینی، دلکشی، اور فنی آرائش کے سبب اردو نثر میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ رجب علی بیگ سرور کو زبان پر کامل عبور حاصل تھا۔ وہ موقع و محل، کردار کی سماجی حیثیت، اور منظر کی نوعیت کے مطابق زبان و بیان کے پیرائے کو بخوبی نبھاتے ہیں۔ ان کی تحریر میں محاورہ بندی، قافیہ آرائی، سجع سازی اور مرصع نگاری کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔
سرور کے اسلوب کی خاص بات یہ ہے کہ وہ ہر منظر اور کیفیت کو فصاحت و بلاغت سے مزین کرتے ہیں۔ ان کی عبارت میں جہاں زبان کی چاشنی ہے، وہیں تہذیبِ لکھنؤ کا بھرپور عکس بھی نظر آتا ہے۔ انھوں نے ہر طبقے، ہر کردار اور ہر صورت حال کو اسی کے لسانی رنگ میں ڈھالا ہے۔
قافیہ بندی اور سجع سازی میں بھی انہیں یدِ طولیٰ حاصل تھا۔ اکثر مقامات پر ان کی تحریر میں ایک شعری چمک محسوس ہوتی ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
“اس رات کی بے قراری، گریہ و زاری، اختر شماری، شہزادے کی کیا کہوں ہر گھڑی بہ حالِ پریشاں، ہوئے آسماں مضطر نگراں تھا کہ رات جلد بسر ہو جائے، نمایاں رُخِ سحر ہو جائے۔”
یہ عبارت نہ صرف معنی خیز ہے بلکہ لفظوں کی موسیقیت سے لبریز بھی ہے۔ یہ اسلوب قاری کو صرف کہانی نہیں سناتا بلکہ ایک جذباتی اور جمالیاتی تجربہ عطا کرتا ہے۔
اختصار
فسانۂ عجائب کے اسلوب میں اختصار بھی ایک اہم خوبی کے طور پر سامنے آتا ہے۔ سرور نے طویل داستان کے باوجود واقعات کو اس طرح مربوط انداز میں پیش کیا ہے کہ آغاز اور انجام میں فطری ربط پیدا ہو گیا ہے۔ انہوں نے غیر ضروری طوالت سے اجتناب برتتے ہوئے قصے کو دلچسپ اور رواں رکھا، اور اس میں باہمی تسلسل کو برقرار رکھا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بعض ناقدین اسے ناول کی ابتدائی شکل یا “ناول کا پیش خیمہ” تصور کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سہیل بخاری کے مطابق، فسانۂ عجائب داستان اور ناول کے درمیان ایک فنی و فکری پل ہے۔ جبکہ عزیز احمد کا خیال ہے کہ سرور کا یہی اختصار اور واقعاتی ربط اردو ناول کی تخلیق میں ممد و معاون ثابت ہوا۔
سرور کا اسلوب صرف الفاظ کی چمک دمک تک محدود نہیں بلکہ وہ زبان کو ایک جاندار وسیلہ اظہار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ان کی تحریر میں ایک ادبی بصیرت، تہذیبی لطافت، اور بیانیہ چابک دستی نظر آتی ہے، جو اردو نثر کے ارتقائی سفر میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
